ازہرہند، ام المدارس دارالعلوم دیوبند کے استاذ اور ہند
وبیرون ہند میں معروف حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب بستوی
قدس سرہ کے سانحہٴ ارتحال پر راقم السطور نے اپنے محسن ومربی حضرت
الاستاذ رحمة اللہ علیہ سے متعلق چند صفحات سیاہ کیے ہیں،
جن میں حضرت الاستاذ
سے وابستہ چند تاریخی معلومات ہیں، مثلاً سن پیدائش، وطن
وعلاقہ، تعلیم وتربیت، درس وتدریس، مواعظ وبیانات، سفرِ
حج، بیعت واجازت، اوصاف واخلاق، سانحہٴ وفات اور پس ماندگان وغیرہ
عناوین ہیں جو قارئین کی خدمت میں پیش ہیں۔
پیدائش
ووطن
صوبہ یوپی کے ضلع بستی (اب کبیر نگر) میں
موضع دریاباد پوسٹ دودھارا میں (جو شہر بستی سے جانب شمال میں
تقریباً تیس، بتیس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے) جناب محمد سلیم
صاحب کے یہاں ۱۹۳۴/ میں حضرت الاستاذ کی پیدائش ہوئی، حضرت
الاستاذ اپنے والدین کی کل پانچ
اولاد (جن میں تین لڑکے اور دو لڑکیاں ہیں) میں سب
سے بڑے تھے، پانچوں میں ترتیب یہ تھی، (۱) حضرت الاستاذ مولانا عبدالرحیم صاحب (۲) مجید النساء صاحبہ (۳) ماسٹر عبدالحفیظ صاحب (۴) جناب عبدالحلیم صاحب (۵) محترمہ زہیدالنساء صاحبہ۔
تعلیم
وتربیت
حضرت الاستاذ مولانا عبدالرحیم صاحب بستوی قدس سرہ نے اوّلاً ابتدائی تعلیم اور
درجہ ایک سے درجہ چار تک اردو ہندی گاؤں ہی کے مکتب میں
حاصل کی، فارسی اور عربی ابتدائی کی چند کتابیں
فارسی کی پہلی، دوسری، آمدنامہ، کریما، پندنامہ،
گلستاں، بوستاں، نحومیر، میزان ومنشعب، پنج گنج، کبریٰ،
علم الصیغہ، نورالایضاح اور ہدایت النحو قریبی گاؤں
مونڈاڈیہہ بیگ کے مدرسہ عربیہ میں پڑھیں، پھر حضرت
الاستاذ نے شرقی یوپی کے مشہور
ومعروف ادارے مدرسہ نورالعلوم بہرائچ کا قصد کیا اور اس میں شرح تہذیب،
شرح ابن عقیل، شرح جامی اور قطبی وغیرہ کتابیں پڑھیں۔
حضرت
الاستاذ دارالعلوم دیوبند میں
جب علاقائی مدارس میں حضرت الاستاذ جیسے علم کے شیدائی کی
تشنگی دور نہ ہوسکی تو خالقِ ارض وسماء نے حضرت الاستاذ کو ام المدارس دارالعلوم دیوبند میں
بادہ خواری کے لیے منتخب فرمالیا جس کا حضرت الاستاذ نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور
مادرعلمی کے علوم وفنون، جامعِ کمالات، ماہرینِ معقولات ومنقولات اور
مقربین بارگاہِ خداوندی سے خوب، خوب استفادہ کیا، پورے چار سال
حضرت الاستاذ مادرعلمی کی روحانی،
علمی اور فکری فضا میں ایسے بن کر تیار ہوئے کہ آج
حضرت الاستاذ کے ہم جیسے بے شمار شاگردوں کو
حضرت پر ناز ہے کہ ہمیں حضرت الاستاذ کی شاگردی حاصل ہوئی
ہے۔
حضرت الاستاذ
۱۳۷۱ھ میں ماہِ ذی قعدہ میں داخل ہوئے اور ۱۳۷۵ھ میں دورہٴ حدیث شریف سے فراغت حاصل
ہوئی، روئیداد دارالعلوم دیوبند سے حضرت الاستاذ کے سال بہ سال کتابوں کی فہرست،
حاصل کردہ نمبرات، متعلقہ اساتذہٴ کرام اور مادرعلمی سے بطورِ انعام
حاصل کردہ کتابوں کے ناموں کے ساتھ پورا نقشہ حاضر خدمت ہے۔
دارالعلوم
دیوبند میں پہلے سال یعنی ۱۳۷۲ھ میں
نام کتاب اساتذہٴ
کرام حاصل کردہ نمبرات انعامی کتابیں
شرح جامی (بحث اسم) حضرت
مولانا سیداخترحسین صاحب ۴۷ سلم العلوم
شرح وقایہ حضرت
مولانا محمد سالم صاحب مدظلہ ۴۴ تقریرالقرآن
اصول الشاشی حضرت مولانا سعیداحمد
صاحب ۴۵ جماعت اسلامی پر تبصرہ
قطبی تصدیقات حضرت
مولانا فیض علی شاہ صاحب ۴۸ چند پند اسلامی
نورالانوار حضرت
مولانا نصیراحمد خاں صاحب ۴۶ الصالحات فی روایات
میرقطبی حضرت
مولانا فیض علی شاہ صاحب ۵۰
قراء ت جناب
قاری حفظ الرحمن صاحب ۴۰
دوسرے سال یعنی ۱۳۷۳ھ میں
نام کتاب اساتذہٴ
کرام حاصل کردہ
نمبرات انعامی
کتابیں
مختصرالمعانی حضرت
مولانا نعیم الرحمن صاحب ۵۱ الإکمال
تلخیص المفتاح حضرت
مولانا نعیم الرحمن صاحب ۴۶ قبلہ نما
ہدایہ اوّل حضرت
مولاناسیداخترحسین صاحب ۴۰ حقیقت معراج
سلم العلوم حضرت
مولانا حسین احمد بہاری صاحب ۵۰ دُرر منثورہ
مقامات حضرت
مولانا نصیراحمد خاں صاحب ۴۸ حرز طفلاں
شرح عقائد حضرت
مولانا فیض علی شاہ صاحب ۴۵ تسہیل الترتیب
میبذی حضرت
مولانا نصیراحمدخاں صاحب ۳۲
تیسرے سال یعنی ۱۳۷۴ھ میں
نام کتاب اساتذہٴ
کرام حاصل کردہ
نمبرات انعامی کتابیں
مشکوٰة شریف حضرت
مولانا سیدفخرالحسن صاحب مرادآبادی ۴۸ وعظ
بے نظیر
جلالین شریف حضرت
مولاناحسین احمد بہاری صاحب ۴۸ اہم
مکتوب
الفوزالکبیر // // ۴۸ لامیة
المعجزات
ملاحسن حضرت
مولانا عبدالاحد صاحب دیوبندی ۴۴
شرح نخبة الفکر حضرت
مولانا سیدفخرالحسن صاحب ۵۰
چوتھے سال یعنی ۱۳۷۵ھ میں
نام کتاب اساتذہٴ
کرام حاصل کردہ
نمبرات انعامی کتابیں
بخاری شریف حضرت
مولانا سیدحسین احمد مدنی صاحب ۴۴
مسلم شریف حضرت
مولانا سیدفخرالحسن صاحب ۴۸
ترمذی شریف حضرت
علامہ محمدابراہیم صاحب بلیاوی ۴۶
ابوداؤد شریف حضرت
مولانا بشیراحمد خاں صاحب ۴۵
نسائی شریف حضرت
مولانا ظہورالحسن صاحب دیوبندی ۵۰
ابن ماجہ شریف حضرت
مولانا ظہورالحسن صاحب دیوبندی ۴۷
طحاوی شریف حضرت
مولانا سید حسن صاحب ۴۴
شمائل ترمذی حضرت
مولانا عبدالاحد صاحب دیوبندی ۴۹
موطا امام مالک حضرت
مولانا عبدالاحدصاحب دیوبندی ۴۹
موطا امام محمد حضرت
مولانا محمد جلیل صاحب ۴۶
نوٹ:
تین سالوں کا ریکارڈ روئیدادوں سے حاصل ہوا ہے؛ البتہ دورہٴ
حدیث کا ریکارڈ دفتر تعلیمات سے حاصل کیا ہے، اس لیے
انعامی کتب معلوم نہ ہوسکیں۔
تدریسی
خدمات
۱۹۵۵ء مطابق ۱۳۷۵ھ میں مادرعلمی دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے
بعد حضرت الاستاذ
نے اپنے اساتذہٴ گرامی حضرت مولانا سیدفخرالحسن صاحب مرادآبادی
قدس سرہ کے حکم سے ضلع مرادآباد یوپی کے گاؤں عمری کلاں کو اپنے
میدان عمل کے لیے منتخب فرمایا، عمری کلاں ہی حضرت
مولانا سید فخرالحسن صاحب قدس سرہ کا اصل وطن بھی تھا؛ لہٰذا ۱۹۵۹/ حضرت الاستاذ
کا فیض ضلع مرادآباد میں جاری رہا، ۱۹۵۹/ میں حضرت مولانا سیدفخرالحسن صاحب قدس سرہ ہی
کے مشورے سے حضرت الاستاذ نے جنوب ہند کے مشہور ومعروف شہر میسور کی
درگاہی مسجد میں امامت وخطابت کے فرائض انجام دینے شروع کیے،
مزید برآں حضرت الاستاذ
نے قرآن کریم کی تفسیر کا سلسلہ شروع فرمایا، جس سے دور،
دور تک حضرت الاستاذ
کی شہرت ہوگئی اور جنوبِ ہند کے تینوں صوبوں (آندھرا، کرناٹک
اور مدراس) میں حضرت الاستاذ کو عوام وخواص ”مولانابستوی“ کے نام سے
جاننے پہچاننے لگے، ۱۹۶۳/ میں حضرت الاستاذ حضرت شیخ الاسلام مولانا سید
حسین احمد صاحب مدنی قدس سرہ کے جنوبِ ہند کے آخری سفر کی
آخری یادگار آندھرا پردیش کے شہر ہندوپور میں مدرسہ شمس
العلوم میں بہ حیثیت صدرمدرس منتخب ہوئے، اس ادارے کو حضرت مدنی نے سانحہٴ ارتحال سے تین چار
سال قبل اس علاقے کے آخری سفر میں قائم فرمایا تھا، اسی لیے
وہاں کے احباب بصیرت حضرات کی رائے یہ ہوئی کہ کوئی
ایسا عالم وفاضل لایا جائے جو خالص دیوبندی فکر ومسلک کے
ساتھ ادارے کو چلاسکے، لہٰذا قاضی الحاجات نے اُن کی اس بہترین
فکر کی حُسنِ تکمیل حضرت الاستاذ کے ذریعے فرمائی، ادارے کے
ارباب انتظام نے حضرت الاستاذ
کے اعزاز واحترام میں عربی اوّل سے چہارم تک کی تعلیم کا
نظم فرمایا، حضرت الاساتاذ
کا تقرر اس ادارے میں صدرمدرس کی حیثیت سے ہوا تھا؛ لیکن
دوتین سال کے بعد ہی منصب اہتمام حضرت الاستاذ کے سپرد کردیاگیا، حضرت
الاستاذ دارالعلوم دیوبند میں تقرر
ہونے تک اس عہدہ اور منصب کو زینت بخشتے رہے، جب کہ اس دوران مدرسہ صولتیہ
مکہ مکرمہ سے بھی مدرسی کی دعوت آئی اور دوسرے نامور
مدارس میں بھی حضرت کو تدریسی خدمات کے لیے مدعو کیاگیا؛
لیکن حضرت الاستاذ
کا صرف ایک جواب تھا کہ یہ مدرسہ میرے شیخ کی یادگار
ہے، میں اسے چھوڑ کر صرف دارالعلوم دیوبند تو جاسکتا ہوں، کسی
اور مدرسے میں نہیں جاسکتا۔
حضرت
الاستاذ دوبارہ دارالعلوم دیوبند میں
حضرت الاستاذ مولانا عبدالرحیم صاحب بستوی رحمة
اللہ علیہ سترہ اٹھارہ سال شہر ہندوپور ضلع اننت پور آندھرا پردیش میں
طالبانِ علوم دینیہ کی پیاس بجھاتے اور اپنے اچھوتے لب
ولہجہ میں بیانات کے ذریعے عوام الناس کو فائدہ پہنچاتے رہے، اسی
دوران قضا وقدر کے فیصلے سے دارالعلوم دیوبند میں کچھ ناگفتہ بہ
حالات پیش آئے اور طلبہ کو کیمپ میں پڑھانے کی نوبت آئی،
جس میں ملک کے نامور اساتذہ کی خدمات حاصل کی گئیں، انھیں
علماء عظام میں حضرت الاستاذ
بھی ہیں اور چھ ماہ بلا تنخواہ حضرت الاستاذ نے اپنی تدریسی خدمات
پیش فرمائیں، پھر باضابطہ ۱۴۰۲ھ مطابق ۱۹۸۲/ میں انٹرویو کے ذریعہ حضرت الاستاذ کا تقرر عربی ابتدائی مدرس کی
حیثیت سے مادرعلمی میں ہوگیا؛ لہٰذا حضرت
الاستاذ ۱۴۰۲ھ سے تادم آخر ۱۴۳۶ھ چونتیس سال مادرعلمی کی درسگاہوں کی
زینت بنے رہے اور عربی کی ابتدائی کتابوں سے لے کر مشکوٰة
شریف، شرح عقائد وغیرہ مختلف علوم وفنون کی کتابیں حضرت
الاستاذ سے متعلق رہیں، راقم السطور نے بھی
حضرت الاستاذ سے نورالانوار، مبادی الفلسفہ اور میبذی تین
کتابیں پڑھی ہیں، اُس دور میں حضرت الاستاذ سے متعلق ترجمہ قرآن کریم
(از سورہٴ فاتحہ تا سورہ ہود) جلالین شریف بھی تھیں،
منطق وفلسفہ کی کتابیں سلم العلوم اور میبذی حضرت سے زیادہ
متعلق رہیں، اسی لیے حضرت الاستاذ کو طلبہ امام المنطق والفلسفہ کہتے تھے؛
لیکن واقعہ ایسا نہیں کہ حضرت الاستاذ صرف معقولات میں ہی اختصاص
رکھتے تھے؛ بلکہ منقولات اصول فقہ، فقہ اور تفسیر وغیرہ میں
دستگاہ رکھتے تھے، ہر سبق میں اہم اہم مقامات کی نشان دہی پھر
ان کا تشفی بخش حل فرماتے، سبق دل چسپ ہوتا تھا، طلبہ کو نہایت مانوس
فرماتے اور ان کی خوش طبعی کے لیے کبھی کبھی کچھ
ظرافت کے جملے بھی فرمایا کرتے تھے۔
میدانِ
خطابت اور حضرت الاستاذ
حضرت الاستاذ
ایک طرف میدانِ درس وتدریس کے شہسوار تھے تو دوسری جانب
خطابت وتقریر کے اسٹیج پر بہترین واعظ ومقرر بھی تھے۔
آپ ہندوستان کے ہر خطے اور ہر علاقے میں بڑے بڑے اجتماعات اور کانفرنسوں کو
خطاب کرتے نظر آتے تھے، ملک کے مختلف اطراف واکناف سے آخری ایام تک
دعوتیں آتی رہیں، جن میں سے اکثر کو حضرت بڑی خوش
اسلوبی کے ساتھ معذرت کے ساتھ رد فرمادیتے تھے۔
مغربی اترپردیش جہاں جیدعلماء کی کثیر
تعداد رہتی ہے، جن میں فقیدالمثال واعظین اور لاثانی
مقررین کا بڑا طبقہ موجود ہوتا ہے، اِس علاقے کے اجتماعات واجلاسات میں
چند اجلاس اپنی ایک خاص پہچان اور شان رکھتے ہیں، ان میں
سامعین کی کثرت، بہترین مقررین کی شرکت وغیرہ
مختلف اوصاف ہوتے ہیں جو ان کو ممتاز کرتے ہیں، انہی اجلاسات میں
سے ایک اجلاس اجراڑہ ضلع میرٹھ یوپی کے مدرسہ کا بھی
ہے، حضرت الاستاذ
مذکورہ اجلاس میں بلاناغہ ہرسال کے مقرر تھے، دوسرے جلسوں میں جائیں
یا نہ جائیں، اس اجلاس میں ضرور تشریف لے جاتے تھے اور
گھنٹہ، ڈیڑھ گھنٹہ بیان فرمایاکرتے تھے۔
راقم السطور کے عہد طالب علمی میں حضرت مولانا فضل
الرحمن صاحب صدر جمعیة علماء اسلام پاکستان نے پشاور میں مادرعلمی
دارالعلوم دیوبند کی ڈیڑھ سوسالہ خدمات پر ایک عظیم
الشان کانفرنس کا انعقاد فرمایا، جس میں پاکستان کے چوٹی کے
علماء کے علاوہ ہندوستان سے حضرت مولانا مرغوب الرحمن صاحب رحمة اللہ علیہ
مہتمم دارالعلوم دیوبند کی قیادت میں اکابرعلماء کا ایک
بڑا وفد شریک ہوا، اس موقع پر دیگر اکابر کے ساتھ ساتھ حضرت الاستاذ بھی شریک وفد تھے۔
بیرون ہند حضرت الاستاذ کے بیانات وخطابات کا سلسلہ لندن میں
مسلسل کئی سالوں سے چلا آرہا تھا، ماضی بعید میں حضرت
الاستاذ کے خطبات کے دو مجموعے ”خطبات لندن“ اور
”خطباتِ برمنگم“ کے ناموں سے زیورِ طباعت سے آراستہ ہوچکے ہیں، جن سے
امت کا بڑا طبقہ استفادہ کررہا ہے۔
اوصاف
وعادات
اوصافِ حمیدہ اور صفاتِ جمیلہ میں سے ایک
سے زائد اوصاف میں حضرت الاستاذ
دوسروں سے ممتاز تھے، عادات واطوار میں بھی حضرت الاستاذ ایک
نرالی شان رکھتے تھے۔ مثلاً
شفقت وترحم:
یہ وصف حضرت الاستاذ
میں ایسا تمام وکمال کے ساتھ موجود تھا کہ حضرت الاستاذ کے دنیا سے رخصت ہوجانے کے متعدد
حضرات کو راقم السطور نے کہتے ہوئے سنا کہ حضرت مولانا واقعی شفیق
تھے، حضرت الاستاذ
کی شفقت کا دائرہ بڑا وسیع تھا، حضرت الاستاذ اپنے اہل خانہ کے علاوہ اساتذہٴ
دارالعلوم، طلبہ دارالعلوم، ملازمین دارالعلوم سب کے ساتھ نہایت شفقت
کا معاملہ فرماتے تھے، حتیٰ کہ رکشہ پولر، فروٹ فروش، سبزی
فروش، پان فروش اور بال کاٹنے والا نائی وغیرہ سبھی پر حضرت
الاستاذ ترحم فرماتے تھے، جس کا اظہار حضرت
الاستاذ کے جانے کے بعد نمازِ جنازہ میں
نمازیوں کی کثرت اور ایصالِ ثواب کا مسلسل سلسلہ وغیرہ سے
ہوتا ہے۔
نفع رسانی: حضرت الاستاذ
کا ایک بڑا کمال یہ تھا کہ حضرت بالکل بے ضرر انسان تھے، کبھی
کسی کو ضرر رسانی کاتصور یا ارادہ تک نہیں فرماتے تھے؛
بلکہ اپنی ذات سے جہاں تک ہوسکے نفع پہنچانے کی سعی فرماتے تھے،
عملی طور پر بھی ضرر رسانی سے بچتے تھے اور زبانی بھی
کبھی ایسی باتیں زبان پر نہیں لاتے تھے جو کسی
کی دل شکنی یا تکلیف کا باعث بن جائیں۔
حلم وبردباری: حضرت الاستاذ
میں بردباری اور حلم بھی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی،
اس کے خلاف کم از کم راقم السطور نے کبھی نہیں دیکھا، حتیٰ
کہ بعض مرتبہ مجالس میں حضرت الاستاذ کے مزاج کے خلاف کوئی بات ہوجاتی
تو سکوت فرماتے، کبھی کبھی اپنے ہم عمروں کو فرماتے کہ آپ کی
اصلاح کی ضرورت ہے۔
متانت وسنجیدگی: حضرت الاستاذ رحمة اللہ علیہ کا طرزِ زندگی نہایت
پرسکون تھا، نہایت وقار وسنجیدگی کے ساتھ رہنا آپ کا طُرہ تھا،
چال ڈھال میں، بول چال میں، اکل وشرب میں غرض یہ کہ آپ کے
ہر عمل میں جلدبازی اور عجلت سے گریز اور متانت، سنجیدگی
اور وقار ملحوظ رہتا تھا۔
بیعت
وخلافت
حضرت الاستاذ مولانا عبدالرحیم صاحب بستوی قدس سرہ
اپنے شیخ اور عالم اسلام کے شیخ حضرت مولانا سید حسین
احمد مدنی رحمة اللہ علیہ سے بیعت ہوئے تھے، حضرت مدنی
رحمة اللہ علیہ نے اپنے دست مبارک سے شجرہٴ مبارکہ لکھ کر دیا
تھا، جس میں ابتداءً تحریر فرمایا تھا: ”میرے دینی
بھائی مولانا عبدالرحیم صاحب الخ“
۲۰۰۶/ میں حضرت الاستاذ نے اپنے ایک صاحب زادے کے ہمراہ
بنگلہ دیش کا سفر فرمایا، اس سفر میں حضرت نے بنگلہ دیش
کے اہم اہم اور مشہور مدارس کا دورہ فرمایا اور اپنے مواعظ حسنہ سے عوام
وخواص کو محظوظ فرمایا، اسی سفر میں حضرت مولانا الطاف حسین
صاحب قدس سرہ نے فرمایا کہ میرے شیخ ومرشد حافظ جی حضور
رحمة اللہ علیہ جو حضرت حکیم الامت تھانوی رحمة اللہ علیہ
کے خلیفہ تھے وہ تین دن سے خواب میں آرہے ہیں اور حکم
فرمارہے ہیں کہ دیوبند سے مولانا عبدالرحیم صاحب بستوی
آئے ہوئے ہیں انھیں خلافت واجازت دے دو! پس حضرت آپ کو آج سے اجازت ہے
کہ آپ خلق خدا کو بیعت فرمائیں اور ان کی اصلاح وتربیت
فرمائیں۔
مرض
الوفات
حضرت الاستاذ
نے رجب ۱۴۳۶ھ میں اپنے متعلق تمام اسباق پورے کرائے، شعبان ۱۴۳۶ھ میں بیماری شروع ہوئی، جس کی
وجہ سے حضرت الاستاذ
نے اپنا لندن کا سفر ترک فرمایا؛ لیکن ابھی بیمایری
میں شدت نہیں تھی، یرقان کی بیماری کو
عام طور پر زیادہ اہمیت بھی نہیں دی جاتی کہ
بڑے ڈاکٹروں سے ہی علاج کرائیں، اس لیے حضرت الاستاذ بھی
دیوبند کے ڈاکٹروں سے علاج کرارہے تھے کہ رمضان ۱۴۳۶ھ میں بیماری نے شدت اختیار کرلی،
پھر حضرت الاستاذ
کے ارجمند فرزندوں نے حیدرآباد میں علاج کرایا وہاں سے واپسی
پر چنڈی گڑھ بھی لے کر گئے، دہلی بھی لے جایاگیا؛
لیکن افاقہ کی صورت نہ ہوئی؛ بلکہ ”مرض بڑھتا گیا جوں جوں
دوا کی“۔
سانحہٴ
ارتحال
ذی قعدہ ۱۴۳۶ھ کی ۲۴ تاریخ تھی، دن چہار شنبہ تھا، حسب معمول راقم
السطور دو گھنٹے پڑھاکر افریقی منزل قدیم میں اپنی
قیام گاہ کی جانب تیزگامی سے بڑھا کہ اتنے میں خبر
ملی کہ دہلی سے فون آیا ہے کہ خیرالہدیٰ کے
موبائل سے ایس ایم ایس آیا ہے کہ ”حضرت والد صاحب
کاانتقال ہوگیا“ یہ خبر بہ ظاہر بڑی مختصر سی ہے؛ لیکن
حضرت الاستاذ سے تعلق رکھنے والوں کے لیے ایک آسمانی بجلی
کے گرنے سے کم نہ تھی، بلا مبالغہ عرض ہے کہ کچھ وقفے کے لیے راقم
السطور دم بہ خود رہ گیا، اندر کی سانس اندر اور باہر کی باہر
رہ گئی۔
الغرض کچھ لمحات کے بعد حال بحال ہوا اور سب سے پہلے جیب
سے موبائل نکال کر کوئی تحقیق وغیرہ کیے بغیر حضرت
الاستاذ حضرت اقدس مولانا ریاست علی صاحب بجنوری زیدمجدہ
السامی وعمت فیوضہ العالی کو یہ اندوہ ناک خبرسنائی۔
یقینا حضرت والا پر اس خبر کا اثر ہم لوگوں سے کہیں زیادہ
ہوا ہوگا کیوں کہ ان دونوں بزرگوں کے باہمی تعلقات کسی پر مخفی
نہیں ہیں؛ لیکن بڑوں کی بڑائی اور ان کا بڑکپن یہی
ہوتا ہے کہ اپنے درد وکرب کو چھپاکر چھوٹوں کو صبر کی تلقین کرتے ہیں،
لہٰذا حضرت الاستاذ دامت برکاتہم نے بھی راقم السطور کو صبر کی
تلقین کرتے ہوئے مرحوم کے لیے مغفرت کی دعا فرمائی۔
حاصل یہ کہ ۲۴/ذی قعدہ ۱۴۳۶ھ مطابق ۹/ستمبر
۲۰۱۵/
بروز چہار شنبہ صبح آٹھ
بج کر چون (8:54) حضرت الاستاذ
ہزاروں غم زدہ لوگوں کو چھوڑ کر مالک حقیقی سے جاملے۔ إنا للہ وإنا إلیہ راجعون․
نمازِ جنازہ احاطہٴ مولسری میں حضرت الاستاذ
مولانا ریاست علی صاحب بجنوری استاذ حدیث دارالعلوم دیوبند
نے ادا کرائی، نماز میں لوگوں کی کثرت کا یہ عالم تھا کہ
احاطہٴ مولسری، دونوں جانب کی چھتیں، احاطہٴ مطبخ
کا میدان، احاطہٴ باغ کا میدان، کتب خانے کے نیچے کا میدان،
دفتر محاسبی کے نیچے سب کھچا کھچ بھرے ہوئے تھے اور نمازی مہمان
خانے کے سامنے اور دوسری جانب مسجد طیب تک تھے، اللہ تعالیٰ
آخرت کی تمام منزلیں آسان فرماکر جنت الفردوس میں مقام نصیب
فرمائے۔ تدفین مزار قاسمی میں ہوئی
کڑے سفر کا تھکا مسافر،
تھکا ہے ایسا کہ سو
گیا ہے
خود اپنی آنکھیں
تو بند کرلیں، ہر آنکھ لیکن بھگوگیا ہے
پس
ماندگان
حضرت الاستاذ
کی اہلیہ محترمہ جو ہم تمام حضرت کے شاگردوں کی روحانی
والدہ ہیں وہ باحیات ہیں اللہ تعالیٰ خیروعافیت
کے ساتھ ان کی عمر میں برکت فرمائے۔ حضرت الاستاذ کے سب سے بڑی اکلوتی صاحب
زادی ہیں یعنی اولاد کی کثرت کے باوجود صاحب زادی
صرف ایک ہیں اور وہ سب سے بڑی ہیں بشریٰ
خاتون جن کا نام نامی ہے اور صاحب اولاد ہیں، پھر حضرت الاستاذ کے نو صاحب زادے ہیں، جن میں
الحمدللہ چار علماء ہیں ایک ڈاکٹر ہیں اور تین حافظ وقاری
ہیں، سب کی شادیاں ہوچکی ہیں۔ ترتیب سے
ان کے اسماء گرامی یہ ہیں:
(۱) مولانا نورالہدیٰ صاحب مہتمم جامعہ فاروقیہ دیوبند
(۲) قاری
قمرالہدیٰ صاحب قاسمی
(۳)ڈاکٹر شمس الہدیٰ
صاحب پروفیسر مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد
(۴)مولانا مفتی
نجم الہدیٰ صاحب قاسمی
(۵)مولانا بدرالہدیٰ
صاحب قاسمی
(۶)حافظ عین
الہدیٰ صاحب
(۷) مولانا ضیاء
الہدیٰ صاحب قاسمی
(۸) جناب فیض
الہدیٰ صاحب
(۹) حافظ خیرالہدیٰ
صاحب
$ $ $
-----------------------------------
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ11،
جلد: 99 ، محرم الحرام1437 ہجری مطابق نومبر 2015ء